Head Lines

دل کے مختلف مسائل کا شکار لوگوں کے لیے ایک بڑی خبر۔ کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مصنوعی کیمیکل سے پاک مکمل طور پر قدرتی اجزاء سے ایک ایسی گولی تیار کی ہے جو دل کے امراض کو روکنے میں مدد فراہم کرتی ہے ــــــ پاکستان اگلے دو سال میں اپنے قریبی دوست چین کے تعاون سے اپنا پہلا خلاء باز خلا میں بھیجے گا ......جاپان نے ایسے روبوٹس بھی تیار کر لیے ہیں جونہ صرف انسان کی طرح ایکسرسائز کر سکتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پسینہ بھی بہا سکتے ہیں ......امریکا کی ایک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دنیا کاسب سے چھوٹا قابل استعمال موبائل فون تیار کیا ہے کمپنی نے اس موبائل کا نام زین کوٹائینی ٹی ون رکھا ہے

Monday, December 21, 2015

دوا کا حد سے زیادہ استعمال، امریکہ میں ریکارڈ اموات

امریکی حکام کے مطابق گذشتہ برس 47 ہزار سے زائد امریکیوں کی موت کی وجہ دوا کی حد سے زیادہ مقدار لینا بنی۔

امراض کو کنٹرول کرنے اور ان سے بچاؤ کے ادارے سی ڈی سی نے جمعے کو جاری رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایک سال میں دوا کی زیادہ مقدار کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔



بتایا گیا ہے کہ اموات کا باعث درد سے نجات کے لیے ادویات کا بے دریغ استعمال بھی ہے جن میں اوگزے کونٹن اور ہائیڈروکوڈون وغیرہ شامل ہیں۔
سی ڈی ایس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 61 فیصد ہلاکتوں کی وجہ افیون سمیت نشہ آور ادویات کا استعمال بنی۔
رپورٹ کے مطابق ملک کی 14 ریاستوں میں زیادہ مقدار میں ادویات کے استعمال میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا جن میں امریکہ کی شمال مشرقی اور جنوبی ریاستیں بھی شامل ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق اس وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں اور بالغوں میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ ورجینیا کے مغربی دیہی علاقے میں اموات کی تعداد سب سے زیادہ دیکھی گئی۔ اگر پورے ملک میں ایک لاکھ میں سے 15 افراد متاثرہ ہوئے تو اس ریاست میں یہ تناسب 35 اعشاریہ پانچ رہا۔
محکمہ صحت نے عمومی معالجین کو بھی ایک ہدایت نامہ فراہم کیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ دائمی درد سے نجات کے لیے ادویات تجویز کرتے وقت احتیاط سے کام لیں۔
سی ڈی سی نے زائد مقدار میں دوا کے اثر کو زائل کرنے کے لیے نیلوگزون کے استعمال پر بھی زور دیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ زائد مقدار میں ادویات لینے کے عمل کی وبا کا سامنا کر رہا ہے۔
http://www.bbc.com/urdu

No comments:

Post a Comment