Head Lines

دل کے مختلف مسائل کا شکار لوگوں کے لیے ایک بڑی خبر۔ کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مصنوعی کیمیکل سے پاک مکمل طور پر قدرتی اجزاء سے ایک ایسی گولی تیار کی ہے جو دل کے امراض کو روکنے میں مدد فراہم کرتی ہے ــــــ پاکستان اگلے دو سال میں اپنے قریبی دوست چین کے تعاون سے اپنا پہلا خلاء باز خلا میں بھیجے گا ......جاپان نے ایسے روبوٹس بھی تیار کر لیے ہیں جونہ صرف انسان کی طرح ایکسرسائز کر سکتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پسینہ بھی بہا سکتے ہیں ......امریکا کی ایک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دنیا کاسب سے چھوٹا قابل استعمال موبائل فون تیار کیا ہے کمپنی نے اس موبائل کا نام زین کوٹائینی ٹی ون رکھا ہے

Monday, December 21, 2015

آسٹریلیا : پاکستانی سائنسدان جوڑے نے زیرِآب چلنے والے ڈرونزکی کمپنی قائم کرلی

 زیرِآب چلنے والے ڈرونزکی کمپنی

سڈنی آسٹریلیا: پاکستانی سائنسدان جوڑے نے آسٹریلیا میں زیرِ آب ڈرون کمپنی قائم کی ہے جس سے زیرِ آب ڈرون سے پانی کے اندر مقامات پر تحقیق اور نقشہ کشی کی جارہی ہے۔

آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی سائنسدان ناصر احسان سمندری (مرین) روبوٹکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں جب کہ ان کی بیگم حنا احسان نے ڈیٹا تجزیہ ( اینالیٹکس) میں ماسٹرز کیا ہوا ہے ان کی ٹیم کے تیسرے رکن کا مسعود نقشبندی کا تعلق افغانستان سے ہے جو سینسر ٹیکنالوجی کے ماہرہیں اور چوتھے رکن  ابراہیم قزاز لبنانی نژاد آسٹریلوی ہیں جو سول انجینئر ہیں اور اب یہ چاروں آسٹریلوی شہریت رکھتے ہیں۔


ناصر احسان دنیا کے ان چند ماہرین میں شامل ہیں جو پانی کے اندر ڈرون کو چلانے اور اس پر تحقیق پر مہارت رکھتےہیں، فوٹو: اے بس سلوشنز

ناصر احسان پاکستان میں ہمالیہ کے دامن میں پیدا ہوئے اور وہاں موجود دریا اور جھیلوں کو دیکھ کر انہیں ان کی گہرائی ناپنے اور معلومات حاصل کرنے کا خیال آیا، اس خواب کی تعبیر کے لیے انہوں نے پانی میں کام کرنے والے روبوٹس پر تعلیم حاصل کی اور اس کے ماہر ہوئے کیونکہ دنیا میں صرف چند لوگ ہی اس نئے شعبے پر مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کروڑوں ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے زیرِ آب روبوٹ ’’ ناٹیلس‘‘ کو چلایا جس کے ذریعے سمندر کی تہہ میں گرم پانی خارج کرنے والی قدرتی چمنیوں ( تھرمل وینٹس) پر تحقیق کی گئی تھی جو سمندر کی غیرمعمولی گہرائی میں موجود ہیں۔ ناصر احسان نے ناٹیلس سے جڑے ایک اور روبوٹ ’’ہرکولیس‘‘ کو چلایا اور اس سے گہرے ترین سمندر کی حیرت انگیز تصاویر لی تھیں۔
ناصر احسان نے ناسا کے ایک انجینیئر کے اوپن سورس پروجیکٹ اوپن آر او وی کو بھی آگے بڑھایا اور اپنی اسٹارٹ اپ کمپنی قائم کی اور زیرِ آب ڈرونز سے فش فارم ، پائپ لائن، آبی ذخیروں، ڈیم اور دیگر مقامات کی صفائی ، منصوبہ بندی اور زیرِ آب نقشہ سازی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان کا بنایا ہوا زیرِ آب ڈرون کیمروں کی مدد سے پانی کی گہرائی کا تھری ڈی نقشہ بناتا ہے جب کہ اس وقت وہ سڈنی واٹرز کے لیے اپنی خدمت فراہم کررہے ہیں جن کے پانی کے ذخائر کا باقاعدہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ ناصر احسان کے مطابق زیرِ آب ڈرون پر سینسر لگا کر انہیں کئی اہم کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔


www.express.com.pk 

No comments:

Post a Comment